Bazigar Novel By Shakil Adilzada Pdf Download

Loading...

Book Name: Bazigar Novel

Writer: Shakil Adilzada

Shakil Adilzada is the author of the book Bazigar Novel Pdf. This novel was published in Sab Rang digest for many years and got a high rank in Urdu novels. The writer describes some special characters in the story, which prove memorable for the readers.

Shakil Adilzada is a great writer and novelist of Urdu. He wrote some classic novels and stories published in his Sab Rang digest. Moreover, readers like the Shakil Adilzada novels and wait for them. I hope you like to read the book Bazigar Novel pdf and share it with your friends.

Here you can download Shakil Adilzada Novels in pdf. You may read Tawan Novel, Aatish Fishan Novel Complete, and Devi Novel. If you like more, subscribe to our website for updates about new book posts.

Download Link

4 thoughts on “Bazigar Novel By Shakil Adilzada Pdf Download”

    • Mr. Awais Bazigar is not completed novel. It has only 8 parts. I have contact company they said the writer does not continue this novel. They requested many times to complete Bazigar novel. But, he does not agree till.

      Reply
  1. شکیل عادل زادہ لفظوں کے ساحر ہیں‘ عربی‘ فارسی اور اردو تین زبانوں کے ماہر ہیں‘ یہ ہندوستان کے عظیم شہر مراد آباد میں پیدا ہوئے‘ مراد آباد شاہ جہان کے صاحبزادے شہزادہ مراد بخش نے آباد کیا تھا اور یہ تین حوالوں سے برصغیر میں مشہور تھا‘ پیتل کے برتن‘ جگر مراد آبادی اور مراد آبادی تمباکو۔ یہ شہر سارے ہندوستان کو پیتل کے برتن سپلائی کرتا تھا‘ والد عادل ادیب شاعر بھی تھے اور صحافی بھی‘ والد نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ’’مسافر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔
    رئیس امروہوی صاحب رسالے کے ایڈیٹر تھے‘ جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں کاغذ کی قلت ہو گئی۔ ’’مسافر‘‘ بند ہو گیا ‘ والد کو دق (ٹی بی) ہو گئی‘ شکیل صاحب نے اس ماحول میں پرورش پائی‘ امروہہ مرادآباد کی تحصیل تھی‘ یہ شہرمراد آباد سے 20 میل کے فاصلے پر تھا‘ شکیل صاحب کے رئیس امروہوی کے ساتھ خاندانی مراسم تھے‘ رئیس صاحب کا پورا خاندان عالم‘ فاضل اور دانش ور تھا‘ جون ایلیا‘ ان کے چھوٹے بھائی اور ہندوستان کے مشہور فلم ساز کمال امروہی کزن تھے‘ شکیل صاحب ان لوگوں کے درمیان پل کر جوان ہوئے‘ رئیس صاحب کا خاندان قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گیا‘ شکیل صاحب 1957ء میں کراچی آئے اور رئیس صاحب کے مہمان بن گئے۔
    یہ مہمان داری 16 سال جاری رہی‘ رئیس صاحب نے انھیں16 سال اپنے گھر میں رکھا‘ وہ ان دنوں روزنامہ شیراز کے نام سے اخبار نکالتے تھے‘ شکیل عادل زادہ اس اخبار سے وابستہ ہو گئے‘ رئیس صاحب نے جون ایلیا کی معاشی بحالی کے لیے ’’انشا‘‘ کے نام سے ادبی رسالہ نکالا‘ شکیل صاحب انشا میں چلے گئے‘ انشا بعد ازاں عالمی ڈائجسٹ بن گیا اور یوں یہ ڈائجسٹوں کی دنیا میں آ گئے‘ شکیل صاحب نے 1975ء میں ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے اپنا ڈائجسٹ شروع کیا اور کمال کر دیا‘ یہ ڈائجسٹ محض ایک ڈائجسٹ نہیں تھا‘ یہ پورا ادب تھا۔
    1970ء کی دہائی سے لے کر 2000ء تک ملک کی تین نسلیں اس ڈائجسٹ کی گود میں پل کر جوان ہوئیں‘ سب رنگ کی سرکولیشن ایک لاکھ 57 ہزار کاپیوں تک گئی اور یہ ریکارڈ آج تک کوئی اخبار‘ کوئی جریدہ اور کوئی ڈائجسٹ نہیں توڑ سکا‘ شکیل عادل زادہ صاحب نے سب رنگ میں غلام روحیں‘ اقابلا اور امر بیل جیسے سلسلے شروع کیے‘ یہ کہانیوں کے قسط وار سلسلے تھے‘ لاکھوں لوگ ان سلسلوں کی لت میں مبتلا تھے لیکن ان کا اصل کمال ’’بازی گر‘‘ تھا‘ شکیل صاحب نے 1985ء میں یہ سلسلہ شروع کیا اور پورے پاکستان کے ہر پڑھے لکھے شخص کو ’’بازی گر‘‘ کا عادی بنا دیا‘ یہ ایک طویل نامکمل کہانی ہے‘ شکیل صاحب یہ کہانی مسلسل 25 سال لکھتے رہے۔
    میری نسل کے زیادہ تر لوگ بازی گر کے ہیرو بابر زمان اور اس کے ساتھی کرداروں کے ساتھ چلتے ہوئے جوان ہوئے ہیں‘ ہم ہیروئن کی طرح اس کہانی کی عادی تھے لیکن پھر شکیل صاحب نے اچانک بازی گر لکھنا بند کر دی جس کے بعد لاکھوں پڑھنے والوں کی وہ حالت ہو گئی جو ہیروئن کے عادی لوگوں کی نشے کی عدم دستیابی کے بعد ہوتی ہے‘ ہماری نسل آج بھی ’’بازی گر‘‘ کی اگلی قسط کا انتظار کر رہی ہے لیکن سب رنگ بند ہو چکا ہے اور شکیل صاحب لکھنے لکھانے سے تائب ہو چکے ہیں۔
    میں شکیل عادل زادہ کا مرید ہوں‘ میں 1999ء میں پہلی بار ان کا ہاتھ چومنے کے لیے کراچی گیا‘ وہ ملاقات راہ ورسم کی بنیاد بنی اور یوں ایک سلسلہ نیاز شروع ہو گیا‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی بھی شکیل صاحب کے نیاز مند ہیں‘ شکیل صاحب ان کی دعوت پر اپریل کے دوسرے ہفتے اسلام آباد تشریف لائے‘یہ یونیورسٹی کے میلے میں مدعو تھے‘ ڈاکٹر صاحب اور شکیل صاحب نے مہربانی فرمائی‘ یہ لنچ کے لیے میرے گھر تشریف لائے‘ میں نے شکیل صاحب سے درخواست کی اور یہ میرے ساتھ مری جانے کے لیے راضی ہو گئے۔
    شکیل صاحب اور ڈاکٹر شاہد صدیقی 14 اپریل کو ایک دن کے لیے مری میں میرے مہمان بنے‘ وہ دن میری حیات کا یاد گار ترین دن تھا‘میں چوبیس گھنٹے اپنے وقت کے عظیم ادیب کی صحبت سے سیراب ہوتا رہا‘ شکیل صاحب زندگی کی کتاب کا ایک ایک ورق پلٹتے رہے اور ہم مرید ان کے سفر زیست کے قدم کے ساتھ قدم ملاتے چلے گئے‘ شکیل صاحب پوری تہذیب ہیں‘ ایک ایسی تہذیب جس میں کتے کو بھی کتا نہیں کہا جاتا تھا کتا صاحب کہا جاتا تھا‘ جس میں سبزی فروش گاجر‘ مولی‘ کیلا اور کھیرا کاٹ کر فروخت کرتا تھا۔
    یہ انھیں ثابت حالت میں اپنی دکان‘ اپنی ریڑھی اور اپنی چھابڑی میں نہیں رکھ سکتا تھا اور اگر کوئی یہ غلطی کر بیٹھتا تھا تو پورا محلہ اسے گنوار اور بدتہذیب سمجھتا تھا‘ جس میں لوگ لڑتے جھگڑتے ہوئے بھی آپ جناب سے باہر نہیں آتے تھے‘ جس میں مائیں دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کو بھی نہیں چوم سکتی تھیں‘ جس میں کتاب‘ شعر اور کھانا تہذیب تھی اور کوئی شخص اس تہذیب سے باہر قدم نہیں رکھتا تھا اور جس میں اونچی آواز‘ غیبت اور ترچھی نظر گالی سمجھی جاتی تھی‘ شکیل عادل زادہ صاحب اس تہذیب کے امین ہیں‘ یہ اونچا بھی بولیں تو کان لگا کر سننا پڑتا ہے‘ چلتی پھرتی لغت بھی ہیں۔
    آپ کوئی لفظ بولیں یہ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک اس لفظ کی ساری جنم کنڈلی سامنے رکھ دیں گے‘ یہ پوری زندگی مشاہیر میں رہے‘ یہ رئیس امروہی‘ جون ایلیا‘ جوش ملیح آبادی‘ مشتاق احمد یوسفی اور ذوالفقار علی بخاری جیسے عظیم لکھاریوں‘ دانشوروں اور شاعروں کے ساتھ رہے‘ سخن فہم بھی ہیں اور موسیقی کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتے ہیں چنانچہ یہ بولتے رہے اور ہم صدیوں کے پیاسے سنتے رہے‘ شکیل صاحب نے صبح ناشتے کی میز پر پطرس بخاری کے بھائی ذوالفقار علی بخاری کا ایک واقعہ سنایا۔
    فرمانے لگے‘ میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کے ایک پروگرام میں شریک تھا‘ اتفاقاً بخاری صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا‘ میں نے ان سے عرض کیا حضور آج کے دور میں یوسفی صاحب سے بڑا مزاح نویس کوئی نہیں‘ وہ تڑپ کر بولے ’’میاں مزاح نویس نہیں ہوتا‘ مزاح نگار ہوتا ہے‘‘ وہ رکے اور پھر پوچھا ’’کیا تمہاری اماں پڑھی لکھی تھی‘‘ شکیل صاحب نے جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ’’ڈرو اس علم سے جو اکتسابی ہو‘‘ میں اور ڈاکٹر شاہد صدیقی دیر تک اس فقرے کا لطف لیتے رہے۔
    میں نے شکیل صاحب سے عرض کیا ’’سر آپ بازی گر مکمل کیوں نہیں کر دیتے‘‘ جواب دیا ’’طبیعت مائل نہیں ہوتی‘‘ میں نے کلپ بورڈ اور قلم ان کے ہاتھ میں دے دیا اور ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ گیا‘ وہ ناں ناں کرتے رہے لیکن میں ضد پر اڑ گیا‘آخر میں یہ مسکرائے اور بازی گر کا آٹھ سال سے رکا ہوا سلسلہ لکھنا شروع کر دیا‘ یہ لکھتے رہے اور میں ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھا رہا۔میں نے ان سے ایک دفعہ لکھوا لیا‘ باقی صفحے یہ کراچی جا کر لکھیں گے۔
    مجھے یقین ہے بازیگر کے لاکھوں چاہنے والے اب بابرزمان کی سرگزشت کا آخری حصہ پڑھ پائیں گے‘ شکیل عادل زادہ علیل ہیں‘ ان کے گھٹنوں میں بھی درد کی شکایت ہے‘ عمر بھی 80 سال سے اوپر ہو چکی ہے لیکن یہ اس کے باوجود ذہنی طور پر توانا ہیں‘لہجے کی شگفتگی اور زبان کی چستی قائم دائم ہے‘ یہ چستی اور شگفتگی بابرزمان کی باقی ماندہ کہانی کے لیے کافی ہو گی۔

    Reply
  2. Abb Tau AankheiN Bhi Dhundli Ho ChukieN Baazigar Kay Intizaar Mein. Sohnay Jawaan Thay Jab Iss Kambakht Ko Parhna Shuroo Kya Tha. Phir Wo Din Aur Aaj Ka Din, Aur Mohabatien Bohut Paalien Par Iss Ishq-e-Laazawal se Peecha Nahi Chhoota. Khwaahish Hay Ke Jaany Se Pehly Yeh Daaimi Tishnagi Tamaam Ho.

    Reply

Leave a Comment